Blog

Keep up to date with the latest news

ان پڑھ سرجن

                                                                                  ان پڑھ سرجن

کیپ ٹاؤن، کا ان پڑھ سرجن مسٹر ھیملٹن، جس کو ماسٹر آف میڈیسن کی عزازی ڈگری دی گئی، یہ ایک ایسا ڈاکٹر تھا جو نہ لکھنا جانتا تھا اور نہ پڑھنا جاتا تھا، عام زبان میں اس کو سفید ان پڑھ کہا جاتا ہے۔ لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ان پڑھ انسان کو میڈیکل کی ڈگری دی گئی۔ 

کیپ ٹاؤن کی میڈیکل یونیورسٹی دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں شامل ہوتی ہے۔ دنیا کا پہلا بائی پاس آپریشن اس یونیورسٹی میں کیا گیا تھا، لیکن چند سال پہلے یہاں پر ایک سیاہ فام شخص کو ماسٹر آف میڈیسن کی ڈگری دی گئی۔ کمال بات ہے نا، اس شخص نے کبھی اسکول کا منہ تک نہیں دیکھا تھا جو انگریزی کا ایک لفظ بھی نہیں پڑھ سکتا تھا۔ لیکن پھر بھی وہ دنیا کا سب سے بہترین سرجن تھا۔ آج جو کچھ میڈیکل سائنس میں چل رہا ہے وہ سب اسی سرجن کے سبب ھے۔ 

uneducated surgeon in urdu



کچھ سالوں پہلے یعنی 2003 کی ایک صبح کو، دنیا کے مشہور سرجن پروفیسر ڈی ویڈ یونیورسٹی میں کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ ہم آج ایک ایسے شخص کو اعزازی ڈگری دے رہے  ہیں جس نے دنیا میں بہترین سرجن پیدا کیے۔ جس کی وجہ سے میڈیکل سائنس میں حران کن تبدیلیاں پیدا ہوئی۔ اس اعلان کے بعد انہوں نے” ہیملٹن “کا نام لیا۔ پوری یونیورسٹی میں کھڑے ہو کر تالیاں بجائیں شاید یہ اس یونیورسٹی کا سب سے بڑا استقبال تھا۔ 

دنیا کے ان پڑھ سرجن کی کہانی بڑی دلچسپی ہے، آپ یہ یقین کر لیجئے کہ ایک ان پڑھ شخص ایک میڈیکل سرجن بن سکتا ہے تو آپ اتنے پڑھے لکھے ہو کر دنیا میں کیا کیا کمال کر سکتے ہیں۔ 

یہ کیپ ٹاؤن کے ایک دور دراز گاؤں میں پیدا ہوا، اس کا والد چرواہا تھا، وہ بکریاں پال تا اور اس کی کھال بیچ کر گزارا کرتا ہے۔ اس کا باپ سارا سارا دن بکریوں کے پیچھے ننگے پاؤں پھرتا تھا۔ بچپن میں اس کا والد بیمار ہوگیا اور ان کا گزارہ کرنا مشکل سے مشکل ہوتا چلا گیا۔ پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے یہ کیپ ٹاؤن آگیا۔ ان دنوں کیپ ٹاؤن یونیورسٹی کی تعمیرات جاری تھی۔ اس کو زندہ رہنے کے لیے کام کرنا ضروری تھا اس لیے وہ یہاں پر مزدور بھرتی ہو گیا۔ 

وہ سارا سارا دن محنت کرتا اور جو پیسے اس کو محنت کرنے کے بعد ملتے وہ اپنے گھر بھجوا دیتا۔ خود رو کی سوکھی روٹی کھا کر کھلے آسمان کے نیچے گراؤنڈ میں سو جاتا۔ برسوں یونیورسٹی میں وہ مزدوری کرنے کے بعد یہاں مالی بھرتی ہو گیا۔ وہ سارا سارا دن گھاس کاٹتا، اس کو ٹینس کورٹ کی گھاس کاٹنے کا کام ملا وہ روز ٹینس کورٹ پہنچتا کہ اس سے شروع کر دیتا وہ تین برس تک یہ کام کرتا رہا پھر اس کی زندگی میں ایک عجیب موڑ آیا۔ 

ایک دن وہ اپنے ٹینس کورٹ میں گھاس کاٹ رہا تھا ایک پروفیسر جس کا نام رابٹ تھا وہ ذرا فاصلے پر تحقیق کر رہا تھا کہ یہ جب زرافہ پانی پینے کے لئے گردن جھکآتا ہے تو اسے غشی کا دورہ کیوں نہیں پڑتا۔ آپریشن شروع ہوا زرافے نے گردن ہلا دی۔ زرافہ بہت ہی بھاری جانور تھا اور اس کی گردن اس سے بھی بھاری۔ آپریشن کے لیے ضروری تھا کہ کوئی ایسا بندہ ہوں جو زرافے کی گردن کو مضبوطی سے پکڑ سکے کے۔ پروفیسر باہر آیا اور اس نے دیکھا کہ ایک موٹا اور اچھے قد والا بندہ باہر گھاس کاٹ رہا ہے۔ پروفیسر نے دیکھا کہ وہ ایک مضبوط قد کاٹھ اور صحت مند جوان ہے انہوں نے اسے اشارے سے بلایا اور اسے زرافے کی گردن پکڑ نے کا حکم دیا ہیملٹن نے گردن پکڑ لی یہ آپریشن آٹھ گھنٹے جاری رہا اس دوران ڈاکٹر چائے اور کافی کے وقفے کرتے رہے لیکن اس نے زرافے کی گردن کو مضبوطی سے پکڑے رکھا۔ 

آپریشن ختم ہوا تو یہ چپ چاپ باہر نکلا اور جا کر گھاس کاٹنا شروع کر دی دوسرے دن بھی وہ زرافے  کی گردن کو پکڑ کر کھڑا ہو گیا اس کے بعد یہ اس کی روز کی روٹین بن گئی یوں  آٹھ دس گھنٹے آپریشن تھیٹر میں جانوروں کو پکڑتا اور اس کے بعد ٹینس کورٹ کی گھاس کاٹنے لگتا۔ 

وہ کئی مہینے اس کام پر لگا رہا اور اس نے اس ڈیوٹی کا کسی قسم کا اضافی معاوضہ طلب بھی نہ کیا اور نہ ہی شکایت کی۔ پروفیسر رابٹ اس کی استقامت اور اخلاق سے متاثر ہو گیا اس نے اسے مالی سے لیب اسسٹنٹ بنا دیا۔ اس کی پرموشن ہو گی وہ اب یونیورسٹی کے آپریشن تھیٹر پہنچتا اور سرجنوں کی مدد کرتا ہے یہ سلسلہ بھی کافی عرصہ جاری رہا۔ انیس سو اٹھاون میں اس کی زندگی میں دوسرا بڑا موڑ آیا اس سال ڈاکٹر برنارڈ یونیورسٹی آے انہوں نے دل کے منتقلی کے آپریشن شروع کر دیے۔۔

یہ ان کا اسسٹنٹ بن گیا اور ڈاکٹر برنارڈ کے کام کو غور سے دیکھتا رہتا ان آپریشنوں کے دوران وہ اسیسٹنٹ سے ایڈیشن سرجن بن گیا۔ آپریشن کے بعد اسے ٹانکے لگانے کا فریضہ سونپ دیتے وہ انتہائی شاندار ٹانکے لگاتا اس کی انگلیوں میں صفائی اور تیزی تھی اس نے ایک ایک دن میں پچاس پچاس لوگوں کے ٹانکے لگائے وہ آپریشن تھیٹر میں کام کرتے ہوئے سرجنوں سے زیادہ انسانی جسم کو سمجھنے لگا۔ چنانچہ بڑے ڈاکٹروں نے اسے جونیئر ڈاکٹروں کو سکھانے کی ذمہ داری سونپ دی۔ اب  ڈاکٹروں کو آپریشن کی تکنیک سکھانے لگا اور آہستہ آہستہ یونیورسٹی کی اہم ترین شخصیت بن گیا۔ وہ میڈیکل سائنس کی اصلاحات سے نہ واقف تھا لیکن دنیا کے بڑے بڑے سرجن سے بہترین سرجن تھا۔ انیس سو ستر میں اس کی زندگی میں تیسرا موڑ آیا اس سال جگر پر تحقیق شروع ہوئی تو اس نے آپریشن کے دوران جگر کی ایک ایسی شریان کی نشاندہی کر دی جس کی وجہ سے جگر کی منتقلی آسان ہو گئی۔ اس کی اس نشاندہی نے میڈیکل سائنس کے بڑے دماغوں کو حیران کر دیا آج جب دنیا کے کسی کونے میں کسی شخص کے جگر کا آپریشن ہوتا ہے اور مریض آنکھ کھول کر روشنی دیکھتا ہے تو اس کامیاب آپریشن کا ثواب براہ راست اسی ان پڑھ سرجن کو پہنچتا ہے۔ 

اس نے یہ مقام اخلاص اور استقامت سے حاصل کیا وہ پچاس برس کیپ ٹاؤن یونیورسٹی سے وابستہ رہا لیکن اس نے کبھی چھٹی نہیں کی، وہ رات کے تین بجے گھر سے نکلتا چودہ میل پیدل چلتا ہوا یونیورسٹی پہنچتا اور ٹھیک چھے بجے آپریشن تھیٹر میں داخل ہوتا۔ ان پچاس سالوں میں اس نے کبھی تنخواہ میں اضافے کا مطالبہ نہیں کیا کبھی اوقات کار کی طوالت اور سہولتوں میں کمی کا شکوہ نہیں کیا۔ 

اس کی زندگی میں ایک ایسا وقت آیا جب اس کی تنخواہ اور مرات یونیورسٹی کے وائس چانسلر سے زیادہ تھی اور اسے وہ اعزاز ملا جو آج تک میڈیکل سائنس کے کسی شخص کو نہیں ملا۔ وہ میڈیکل ہسٹری کا پہلا ان پڑھ استاد تھا وہ پہلا سرجن تھا جس نے زندگی میں 30 ہزار سرجنوں کو ٹریننگ دی۔ اس کے بعد یونیورسٹی سے پاسٹ آؤٹ ہونے والے سرجنوں کے لئے لازم قرار دے دیا گیا وہ ڈگری لینے کے بعد اس کی قبر پر جائیں تصویر بنواں اور اس کے بعد عملی زندگی میں داخل ہوجائیں ۔ 

کیا آپ کو معلوم ہے کہ اس نے یہ مقام کس طرح حاصل کیا؟ جی ہاں آپ صحیح سمجھے صرف اس کی ایک ہاں کی وجہ سے۔ جس دن اسے زرافے کی گردن پکڑنے کے لیے آپریشن تھیٹر میں بلایا گیا یا اگر وہ اس دن انکار کر دیتا اگر یہ اس دن یہ کہہ دیتا میں مالی ہومیرا کام گھاس کاٹنا ہے نہ کے زرافے کی گردن پکڑ نا۔ تو یہ رہتی دنیا تک صرف ایک مالی ہی رہتا۔ 

زندگی میں ایسے بے شمار مواقع آپ کو تلاش کر رہے ہوں گے آپ ان مواقع سے بھرپور فائدہ اٹھائیں۔ کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیں انشاء اللہ تعالی کامیابی آپ کے قدم چومے گی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *