Blog

Keep up to date with the latest news

وزیر کے لئے بادشاہ کے تین سوالات

                       وزیر کے لئے  بادشاہ کے تین سوالات


ایک بڑی سلطنت کا بادشاہ ایک دفعہ اپنے دربار میں بیٹھ کر شاہی فرمان جاری کر رہا تھا۔ اس کے وزیروں میں سے ایک نوجوان وزیر بھی شامل تھا، وہ اپنے اس نوجوان وزیر سے کافی خوش تھا اور اس نوجوان وزیر کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ آج میں بہت خوش ہوں مانگو کیا مانگتے ہو؟ جس پر نوجوان وزیر کہتا ہے کہ شہنشاہ عالم آپ کی سلطنت بہت بڑی ہے اگر مجھے اس کا دسواں حصہ بھی مل جائے تو میں دنیا کا امیر ترین شخص بن جاؤں گا۔ اس پر بادشاہ نے کہا کہ اگر میں تم کو اپنے آدھی سلطنت دے دوں تو تم کیا کروگے؟ جس پر نوجوان ان وزیر نے کہا کہ اگر آپ مجھے اپنی آدھی سلطنت دے دی تو میں خوش ہو جاؤں گا۔ جس پر بادشاہ نے فرمان جاری کیا کہ آج سے آدھی سلطنت اس نوجوان وزیر کی ہے، اور ساتھ میں نوجوان کے لیے 3 سوال بھی رکھ لیے۔اگر تم 30 دن تک ان تین سوالوں کے جواب حاصل کر لیتے ہو تو آدھی سلطنت تمہاری ہو جائے گی۔ 

three question of the king



انسان کی  سب سے بڑی سچائی کون سی ہے؟

انسان کی میں سب سے بڑا دھوکہ کون سا ہے؟ 

 انسان کی سب سے بڑی کمزوری کون سی ہے؟ 

ساتھ میں دوسرا فرمان جاری کیا کہ اگر اس نوجوان نے ان تین سوالوں کے جواب نہ دے سکا تو اس کا سر قلم کردیا جائے گا۔ 

ان تین سوالوں کے بعد اپنا فرمان مزید جاری کرتے ہوئے بادشاہ نے کہا کہ نوجوان تمہارے پاس 30 دن ہے اگر تم نے ان تین سوالوں کا جواب حاصل کر لیا تو آدھی سلطنت تمہاری اگر نہ کر سکے تو میرا پہلا حکم ختم ہو جائے گا اور تمہارا سر قلم کر دیا جائے گا۔ دونوں فرمان نوجوان کو پکڑاتے ہوئے بادشاہ نے کہا کہ تمہارا ٹائم اب شروع ہوتا ہے ۔ 

نوجوان سکتے میں آگیا اور فرمان لے کر دربار سے باہر نکل گیا۔ اس نے سلطنت کے سب سے بڑے دانشوروں کو بلایا اور تین سوال ان کے آگے رکھ دئیے۔ دانشوار کئی دنوں تک سوالوں کے جواب تلاش کرتے رہے لیکن کوئی بھی تسلی بخش جواب نہ دے سکا۔ نوجوان کو 30 دن کا ٹائم ملا تھا جو کہ اب ختم ہوتا جا رہا تھا۔ 

وقت گزرتا جا رہا تھا اور سوالوں کے جواب نہیں مل رہے تھے۔ نوجوان شاہی فرمانوں کو لے کر گلیوں گلیوں بھٹک رہا تھا اس کا شاہی جوڑا پھٹ چکا تھا اس کے پاؤں پر چھالے بھی بن چکے تھے اور اس کی سر کی پگڑی ڈھیلی ہو گردن میں آ چکی تھی۔ یہ نوجوان بھٹکتا بھٹکتا سلطنت سے باہر نکل گیا۔ یہاں تک کہ اس کا مقررہ وقت بھی ختم ہوگیا اور اس نے صبح دربار میں پیش ہونا تھا۔ اسی غم کے عالم میں وہ ایک جھونپڑی سے گزرا دیکھا کہ وہاں ایک فقیر روٹی پانی میں ڈبو ڈبو کر کھا رہا ہے اور ساتھ میں اس کا کتا پیالے میں دودھ پی رہا ہے۔ 

نوجوان اس کے پاس گیا اور فقیر نے دیکھتے ہی اس کو کہا کہ آئیے جناب آپ صحیح جگہ پر آئے ہیں۔ آپ کے تینوں سوالوں کے جواب میرے پاس موجود ہیں۔ نوجوان یہ سن کر حیران ہو گیا کہ اس کے پاس تین سوالوں کے جواب کیسے موجود ہیں اور اس کو کیسے پتا چلا کہ میں تین سوالوں کا جواب ڈھونڈ رہا ہوں؟ تو اس کی کشمکش کو اس فقیر نے ختم کردیا۔ فقیر نے اپنی دری اٹھائی اور شاہی لباس نکال کر وزیر کو دکھایا۔ وزیر یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ شاہی لباس بادشاہ صرف اپنے قریبی وزیروں کو دیتا تھا جو اس فقیر کے پاس موجود تھا۔ فقیر نے مزید کہا کہ میں بھی کسی وقت وقت بادشاہ کا وزیر ہوا کرتا تھا مجھے بھی آدھی سلطنت کے لالچ نے اس جھونپڑی تک پہنچا دیا۔ وزیر میں کہا کہ کیا آپ کو تینوں سوالوں کے جواب نہیں ملے تھے؟ جس پر فقیر نے کہا مجھے تینوں سوالوں کے جواب مل گئے تھے میں جواب  بادشاہ کو سنا کر اور سلطنت کا فرمان پھاڑ کر ادھر جھونپڑی میں آ کر بیٹھ گیا۔ 

فقیر نے کہا کہ میں تم کو ان تینوں سوالوں کے جواب دوں گا۔ لیکن دو سوالوں کے جواب بالکل مفت دوں گا اور تیسرے کے لیے تم کو قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ جس پر نوجوان راضی ہوگیا۔ فقیر نے پہلے سوال  سے شروع کیا

انسان کی  سب سے بڑی سچائی کون سی ہے؟

انسان کی سب سے بڑی سچائی موت ہے، چاہے جو کچھ بھی ہو جائے انسان جتنا مرضی اوپر اوڑھ لے انسان جتنا دور دراز بھاگ سکتا ہے بھاگ لے، لیکن اس سچائی سے انسان  نہیں موڑ سکتا۔ لہذا دنیا کی سب سے بڑی سچائی موت ہے۔ 

انسان کا سب سے بڑا دھوکہ کیا ہے؟

انسان کا سب سے بڑا دھوکا زندگی ہے، انسان دنیا داری میں اس قدر مصروف ہو جاتا ہے کہ یہ اس دھوکے کو بھول جاتا ہے۔ اور آخرکار اس کو زندگی ایک دھوکہ دے جاتی ہے۔ لہذا زندگی سب سے بڑا دھوکا ہے۔ 

تیسرے سوال کے جواب پر فقیر نے ایک شرط رکھ دی۔ فقیر نے کہا کہ تم کو تیسرے سوال کا جواب اس وقت ملے گا جب تم یہ کتے کا جھوٹا دودھ پیو گے۔ اور دودھ کتے کے آگے سے اٹھا کر نوجوان کی طرف بڑھا دیا۔ نوجوان نے دودھ پینے سے صاف انکار کر دیا۔ جس پر فقیر نے کندھے اچکائے اور کہا کہ تمہاری مرضی میں کیا کر سکتا ہوں۔ تمہارے پاس دو راستے ہیں یا تو تم کتے کا یہ دودھ پی لو اگر نہیں پی سکتے تو صبح شاہی دربار میں حاضر ہو جاؤ اور تمہارا سر قلم کر دیا جائے گا۔ 

مرتا کیا نہ کرتا نوجوان نے پیالہ اٹھایا اور ایک ہی گھونٹ میں دودھ پی گیا۔ جس پر فقیر نے زور دار قہقہہ لگایا اور کہا

انسان کی سب سے بڑی کمزوری کیا ہے؟

انسان کی سب سے بڑی کمزوری انسان کا غرض ہے، یہ تمہارا غرض ہی ہے جس کی وجہ سے تم نے کتے  کا جھوٹا دودھ بھی پی لیا۔ اگر تمہارے پاس غرض نہ ہوتا تو تم کبھی یہ کتے کا جھوٹا دودھ نہیں پیتے۔یہی وہ آخری وجہ تھی جس نے مجھے جھونپڑی میں آنے پر مجبور کر دیا۔ میں جب آدھی سلطنت لے لوں گا تو میں اس دنیا کی سب سے بڑی سچائی یعنی موت کو بھول جاؤں گا۔ اور جب میں اس سچائی کو بھول جاؤں گا تو میں دھوکے میں آ جاؤں گا۔ اور دھوکے میں آنے کے بعد مجھے ہر روز اپنی خواہشات کے ہاتھوں غرض کا پیالہ پینا پڑے گا۔ تو میں کیوں اس غرض کے پیالے کے ساتھ زندہ رہو ں اس لئے میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ادھر آ گیا۔ 

یہ سن کر نوجوانوں اٹھا اور اور ہلکے ہلکے قدموں سے دربار کی طرف چلنا شروع ہو گیا۔ وہ اندر ہی اندر خود کو کوس رہا تھا۔ وہ اپنے آپ پر شرمندہ ہو رہا تھا۔ محل کے آگے پہنچ کر اس کو ٹھوکر لگی اور وہ منہ کے بل گرا گرتے ہیں اس کی روح پرواز کر گئی۔ 

دنیا کی سب سے بڑی سچائی کو جان کر اور دنیا کے سب سے بڑے دھوکے کو جان کر زندگی گزارنے گزارنی چاہئے۔ تاکہ ہم سب کو بھی غرض کا پیالا نا پینا پڑے۔ 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *