Blog

Keep up to date with the latest news

ایماندار بادشاہ کی کہانی

                                                  ایماندار بادشاہ کی کہانی  



ملا احمد جیون اورنگزیب عالمگیر کے استاد تھے۔ اورنگزیب عالمگیر اپنے استاد کی بڑی عزت کرتے تھے۔ وہ انہوں نے ساری زندگی ان سے تعلیم حاصل کی اس لیے ان کو وہ اپنا سب کچھ مانتے تھے۔ اپنے استاد کی خدمت کرنے میں وہ کوئی بھی کسر نہیں اٹھاتے تھے۔ 

بادشاہ بننے کے بعد اورنگزیب نے ایک اپنے استاذ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ انہوں نے اپنے استاد محترم کو خط لکھا  ملنے کا کہا۔ اتفاق سے رمضان میں مدرسے سے بچوں کو بھی چھٹیاں تو رمضان میں ملنے کا پروگرام بن گیا۔ دہلی کی جامع مسجد میں اورنگزیب اور ان کے استاد محترم کی ملاقات۔ اورنگزیب اور استاد محترم دونوں مل کر بادشاہ محل تشریف لائے۔ پورے ایک ماہ تک اورنگزیب نے اپنے استاد محترم کی کی خوب خدمت کی۔ جب ایک ماہ پورا ہوا تو ان کے استاد اپنے گھر جانے لگے تو نظر آنے کے طور پر اورنگ زیب نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور ایک چوونی نکال کار استاد محترم کو دے دی۔ ملاجیون صاحب نے جاتی دفعہ شکریہ ادا کیا اور چلے گئے۔ 

story of orangzab a honest king



اس کے بعد اورنگزیب عالمگیر اپنی سلطنت کے کاموں میں اس طرح کھو گیا کہ 14 سال تک ان کو کوئی خبر نہ ہوئی۔ 14 سال بعد ان کے وزیر نے ان کو بتایا کہ آپ کے استاد محترم ایک بہت بڑے زمیندار بن چکے ہیں۔ ان کے پاس کافی پیسہ آج چکا ہے اور وہ اب بڑے بڑے تاجروں میں شمار ہوتے ہیں۔ اورنگزیب نے ان کو پھر خط لکھا اور ملنے کے لیے بلایا۔ وہ پھر رمضان میں ملنے کے لیے آئے۔ 
آپ نے ان کو اپنے ساتھ بٹھا لیا اور باتیں کرنے لگے۔ان کے کپڑوں کو دیکھ کر اور بات کرنے کا انداز دیکھ کر ایسے لگ رہا تھا کہ ان کی فطرت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اورنگ زیب کی ہمت نہ ہوئی کہ اپنے استاد سے ان کے امیر ہونے کی وجہ پوچھ سکے۔ پھر ان کے استاد محترم نے خود ہی ان کو اپنی امیر ہونے کی وجہ بتا نی شروع کی۔
استاد محترم نے کہا آپ نے جو چوونی دی تھی اس سے کپاس کے بیج خریدے اور کپاس بیجی جس سے کافی فائدہ ہوا۔ اور یوں دیکھتے دیکھتے میں امیر ہو گیا۔ سچ میں آپ کی چوونی میں بڑی طاقت تھی۔ یہ سن کر اورنگزیب عالمگیر نے کہا کہ آپ کو اس چوونی کی کہانی سناو؟ جس پر استاد محترم نے کہا جی سنائے
آپ نے اسی وقت ایک دکاندار کو بلایا اور کہا کہ آج سے چودہ سال پہلے فلاں تاریخ کا حساب نکال کر مجھے  دو ۔ دوکاندار گرتا ہوا کانپتے ہاتھوں سے حساب کرنے لگا۔ وہ حساب لگا کر آپ کو بتا رہا تھا کہ ایک جگہ آپ کر رک گیا ۔ اور وہاں پر ایک چوونی درج تھی لیکن لینے والے کا نام درج نہیں تھا۔ جس پر اس نے کتاب بند کی اور کہا کہ ایک چوونی  درج ہے لیکن لینے والے کا نام موجود نہیں۔یہ اس بار بادشاہ نے کہا کہ یہ چوونی کدھر گئی پھر؟ اس نے کاپی بند کر دی اور کہا کہ میں آپ کو اس سے چوونی کے بارے میں ایک داستان سنانا چاہتا ہوں. یہ اس بار بادشاہ نے کہا سنائے۔ 
اس نے کہا کہ ایک رات بارش بہت زیادہ ہو رہی تھی میرے گھر کی چھت پانی سے ٹپک رہی تھی۔ میں نے لاکھ کوشش کی لیکن میں کامیاب نہ ہوسکا۔ میں نے باہر جھانکا تو ایک آدمی لالٹین لیے کھڑا تھا۔ میں نے اس کو بلایا اور بلا کر اس سے کہا کہ مزدوری کرو گے؟ جس پر یہ آدمی مان گیا اور اس نے تقریبا چار پانچ گھنٹے لگا کر میرے چھت کی مرمت کی۔ اور اسی وقت فجر کی نماز کا ٹائم ہوگیا۔ یہ آدمی نیچے آیا اور میرا سامان درست کرنے کے بعد کہا کہ میاں آپ کا کام ہو چکا ہے۔ اب میں جا سکتا ہوں؟ جس پر میں نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا تو میرے پاس صرف ایک چوونی تھی۔ میں نے یہی چوونی نکال کر اسے مزدوری کے طور پر دے دی اور کہا کہ صبح دکان پر آنا اور باقی آپ نے مزدوری لے جانا۔ جس پر اس آدمی نے کہا کہ نہیں میں صبح دکان پر نہیں آ سکتا۔ آپ مجھے یہی چوونی مزدوری کے طور پر دے دیجئے۔ میں نے اور میری بیگم نے اس کی بڑی منت سماجت کی کے یہ مزدوری بہت کم ہے تم صبح دکان پر آنا اور آکر مزدوری لے جانا۔ لیکن یہ آدمی بولا کہ اگر آپ کو ایک چوونی  دینی ہے تو دے دو نہیں تو میں صبح دکان پر نہیں آ سکتا۔ 
تو میں نے اسے ایک چوونی پھر دے دی اور آج تک میں اپنے آپ کو ملامت کر رہا ہوں کہ اگر میرے پاس ایک چوونی سے زیادہ ہوتا تو میں اس کو مزدوری کے طور پر ایک روپیہ دے دیتا۔ یہ کہنے کے بعد بادشاہ نے کہا ٹھیک ہے تم جا سکتے ہو۔ دکاندار اٹھا اور چلا گیا۔ 
اس کے بعد ملاجیون احمد نے بادشاہ کو مخاطب کر کے کہا کہ مجھے پتا ہے کہ میرا شاگرد کبھی بھی حرام کی کمائی سے مجھ کو ایک روپیہ بھی نہیں دے سکتا۔ جس پر بادشاہ سلامت نے کہا کہ میں نے کبھی بھی شاہی خزانے سے ایک روپیہ اپنے اوپر نہیں لگایا۔ ہفتے میں دو دن ٹوپیاں سیتا ہوں اور دو دن مزدوری کرتا ہوں۔ اس دن بھیس بدل کر میں رعایا کے حال جاننے کے لیے باہر نکلا تھا۔ تو مزدوری کے طور پر میں نے ادھر کام کیا۔ 
جس پر استاد محترم بہت خوش ہوئے اور بادشاہ سلامت کی ایمانداری اور فراغ دلی کو خوب سراہا۔ 
آج کل کے دور میں ہر سیاستدان اتنا پیسہ اکٹھا کر رہا ہے کہ جیسے پیسہ دنیا میں اب ختم ہونے والا ہے جتنا اکٹھا کرنا ہے اکٹھا کر لو۔ اتنی اتنی بڑی جائیدادیں ہیں کہ بھوک ختم ہی نہیں ہو رہی۔ ایک دن انسان نے مر جانا ہے اور سب کچھ کریہاں رہ جانا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے اگلے کو سنوارے نہ کے آج کو۔غریبوں پر خرچ کریں اور اللہ تعالی سے مغفرت کے لیے دعا کریں۔ 
Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *