Blog

Keep up to date with the latest news

دنیا کا نامور فلسفی ارسطو

 

                                دنیا کا نامور فلسفی ارسطو

 

دنیا کا نامور فلسفی افلاطون اس نے ایتھن میں اکیڈمی کھول لی۔ جہاں پر اس وقت کے امیر زادوں کو یہ تعلیم دیا کرتا تھا۔ جب اکیڈمی میں چہل پہل وئی تو اس نے وہاں پر ایک اٹھارہ سال کا لڑکا چائے پانی دینے کے لئے اور صاف صفائی کے لیے رکھ لیا۔ جب افلاطون اپنا لیکچر شروع کرتا تو لڑکے کو کلاس سے باہر بھیجا جاتا۔ اور باھر سے دروازہ بند کر لیا جاتا۔ 
یہ امیر زادوں کی کلاس تھی لہٰذا یہاں غریب بندہ نہیں بیٹھ سکتا۔ دروازہ بند کر دیا جاتا اور لیکچر ہوتا۔ یہ لڑکا باہر دروازے پر بیٹھ کر افلاطون کے لیکچر سنتا۔ یہ پورے دو ماہ بعد دروازے پر بیٹھ کر ان کے لیکچر سنتا رہا۔ افلاطون نے دو ماہ بعد اپنے تمام لیکچر ختم کر دیے۔ کلاس ختم ہونے کے بعد ایک آخری تقریب رکھی گئی۔ جس میں تمام شاگرد کو باری باری بولنے کا موقع دیا گیا۔ تمام شاگرد سٹیج پر آتے اور کچھ علم پر بات کرتے اور چلے جاتے۔ افلاطون اپنے شاگردوں سے نہ مطمئن نظر آرہا تھا۔ کیونکہ اس نے اپنے شاگردوں کو جو پڑھایا وہ صحیح طریقے سے بول نہیں پا رہے  تھے۔ 
the great thinker

تمام شاگردوں کے بولنے کے بعد یہ لڑکا بھی اندر داخل ہوا اور افلاطون سے کہا کہ کیا میں کچھ بول سکتا ہوں۔ جس پر افلاطون نے انکار کر دیا کہ تم ایک ان پڑھ انسان ہوں تم کیسے علم پر بول سکتے ہو۔ اس نے کہا کہ میں دو ماہ سے آپ کے لیکچر دروازے کے آگے بیٹھ کر سن رہا ہوں میں ان سے اچھا بول سکتا ہوں۔ جس پر افلاطون نے اس کو سٹیج پر آنے کا اور بولنے کا کہا۔ یہ لڑکا  30 منٹ تک علم کے اوپر بولتا رہا۔ اس کا ایک ایک لفظ دل میں اتر جانے والا تھا۔ سب شاگرد حیران رہ گئے کہ یہ لڑکا کیسے دروازے پر بیٹھ کر علم کے بارے میں اتنی معلومات حاصل کر سکتا ہے۔ 

جب اس نے اپنا بولنا ختم کیا اور نیچے آگیا تو افلاطون خود سٹیج پر گیا اور کہا میں نے پورے دو ماہ تک پوری کوشش کی کے اپنے شاگردوں کو علم کی خاص دولت سے نوازو اور ان کو وہ پڑھ آؤں جو میں خود جانتا ہوں۔ پر اس بات نے یہ ثابت کر دیا کہ میرے شاگردوں کے اندر علم کی چاہت موجود نہ تھی جس کی وجہ سے وہ علم حاصل نہ کر سکے اور اس لڑکے کے اندر علم کی چاہت موجود تھی جس نے باہر بیٹھ کر علم حاصل کر لیا۔ 

کیا آپ اس لڑکے کا نام جانتے ہیں؟ اس لڑکے کا نام ارسطو ہے۔ ارسطو نے فلسفہ میں ایک اپنا نام پیدا کیا۔ یہ افلاطون کے سب سے قابل شاگردوں میں سے ایک تھا۔ جس نے علم کے بہت سارے جوہر بکھیرے جو آج بھی ضرب المثل کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ 

مثلا ایک دفعہ کسی نے آہستہ سے کہا کہ میں نے کسی معتبر آدمی سے تمہارے بارے میں کچھ غلط باتیں سنیں ہے۔ جس پر ارسطو نے کہا کہ غیبت کرنے والا معتبر آدمی کیسے ہو سکتا ہے۔ 

ایک دفعہ ارسطو اپنے مکتب کی طرف جا رہا تھا تو راستے میں ایک آدمی نے اس سے کہا کہ آپ کو اپنے شاگرد کے بارے میں پتا ہے اس نے کیا کہا ہے؟ جس پر ارسطو نے جواب دیا نہیں! پر مجھے تین سوالات کے جواب دو پھر مجھے بتانا۔

کیا اس بات میں کوئی کامل سچائی ہے جو مجھے بتانے لگے ہو؟ 

اس آدمی نے جواب دیا نہیں۔ 

کیا یہ بات میرے لئے کچھ فائدہ مند ہے؟ 

جس پر اس شخص نے جواب دیا نہیں لیکن یہ اس شاگرد کے لیے فائدہ مند ہے۔ 

کیا اس بعد میں کسی قسم کی بھلائی ہے؟ 

جس پر وہ شخص خاموش ہو گیا۔ 

ارسطو نے جواب دیا جب اس میں میرے لیے کسی قسم کا کوئی فائدہ نہیں، اس بات میں کوئی کامل سچائی بھی نہیں اور یہ بات بھلائی بھی نہیں کرسکتی تو مجھے اس بات کو سننے کی کوئی ضرورت نہیں۔ 

ایک اور واقعہ ارسطو کی زندگی کا ہے، ارسطو سکندر اعظم استاد تھا۔ وہ سکندر اعظم کو عورتوں سے دور رہنے کی ہدایات دیا کرتا تھا۔ جس سے اس علاقے کی شہزادیاں بڑی پریشان تھی۔ انہوں نے ایک ترکیب سوچی اور ایک خوبصورت کانیز کو ارسطو کی خدمت کرنے کے لیے کہا۔ اس کا نیز نے اپنے جلووں سے ارسطو کو اپنے جال میں پھانس لیا۔ اور ارسطو کو ایک دن گھوڑا بننے کا کہا کہ میں آپ پر سواری کرنا چاہتی ہوں۔ ارسطو گھوڑا بن گیا اور اسی ٹائم شہزادیاں سکندر اعظم کو لے کر ارسطو کے کمرے میں آگئی۔ شاگرد یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ استاد مجھ کو عورتوں سے دور رہنے کا کہتا ہے اور خود ان کے لیے گھوڑا بنا ہوا ہے۔ ارسطو نے اسی وقت اپنی حاضر دماغی سے کام لیا اور کہا کہ یہ عورت تمہارے استاد کو گھوڑا بنا سکتی ہیں تو سمجھ جاؤ یہ تم کو گدھا بھی بنا سکتی ہیں۔ 

اپنے اندر کے چھپے  ہوئے فن کو جانیے محنت کیجئے دوسروں کے ساتھ محبت سے پیش اور اللہ تعالی سے دعا کیجیے کہ اللہ پاک ہم سب کے لئے آسانیاں پیدا کرے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *