Blog

Keep up to date with the latest news

حضرت عیسی اور تین روٹیاں

                                                       بحوالہ کتاب انوار نعمانیہ صفحہ نمبر 353


                                                                       حضرت عیسی اور تین روٹیاں



ایک دفعہ حضرت عیسی اپنے شاگرد کے ساتھ کسی سفر پر روانہ ہوئے۔ سفر کے دوران جب وہ ایک کچی آبادی کے پاس سے گزر رہے تھے تو ان کو بھوک محسوس ہوئی۔ حضرت عیسی نے اپنے شاگرد سے کہا کہ تمہارے پاس کتنے پیسے ہیں۔ شاگرد نے جواب دیا کہ میرے پاس دو درہم ہیں۔ آپ نے اپنی جیب میں سے ایک درہم نکال کر شاگرد کو دیا اور کہا کے ساتھ والی بستی سے جاؤ اور تین درہم کی روٹیاں لے آؤ 

۔ شاگرد ساتھ والی بستی میں گیا اور تین درہم کی تین روٹیاں لے لیں۔ جب واپس آنے لگا تو راستے میں سوچا کہ میرے پاس دو  درہم تھے جب کے حضرت عیسی نے مجھے صرف ایک درہم دیا۔ اس طرح دو روٹیاں میری بنتی ہیں اور ایک روٹی حضرت عیسی کی بنتی ہے۔ اور وہ ڈیڑھ روٹی کھائیں گے اور ڈیڑھ روٹی میرے حصے میں آئے گی۔ کیوں نہ میں اپنے حصے کی ایک روٹی ادھر کھا جاؤں۔ وہ شاگرد ادھر ہی بیٹھ گیا اور ایک روٹی بیٹھ کر کھا لی۔ 

do not greedy in life



جب روٹیاں لے کر حضرت عیسی کے پاس آیا تو حضرت عیسی نے روٹی کھانے کے بعد شاگرد سے پوچھا کہ تین درہم کی کتنی روٹیاں آئی تھی؟

 شاگرد نے جواب دیا کہ اے پیارے نبی تین درہم کی صرف دو روٹیاں آئی تھی۔

  حضرت عیسی آگے سفر پر روانہ ہوگئے۔ جنگل ختم ہونے کے بعد آگے دریا راستے میں موجود تھا۔ شاگرد یہ دیکھ کر پوچھنے لگا کہ اب ہم عبور کیسے کریں گے؟ حضرت عیسی نے کہا گبراو نہیں تم میرا دامن تھام لو اور میرے پیچھے پیچھے چلو۔ اگر اللہ نے چاہا تو ہم دریا عبور کر جائیں گے۔ حضرت عیسی نے اللہ کا نام لے کر قدم دریا میں رکھا اور شاگرد نے ان کا دامن تھام لیا۔ اللہ کے کرم سے دریا عبور کر گےاور ان کے پاؤں بھی گیلے نہیں ہوئے۔ شاگرد یہ دیکھ کر حیران رہ گیا اور  حضرت عیسی سے کہنے لگا کہ اے اللہ کے پیارے نبی یہ سب کچھ دیکھ کر میرا ایمان تازہ ہوگیا ہے۔ آپ اللہ کے سچے نبی ہو۔ حضرت عیسی نے فرمایا کہ اب تم کو کیسا محسوس ہو رہا ہے؟ شاگرد نے جواب دیا کہ اب میرا دل نور سے منور ہو چکا ہے۔ حضرت عیسی نے فرمایا کہ بتاو اتنی روٹیاں تھی؟

 جس پر شاگرد نے جواب دیا اے اللہ کے پیارے نبی صرف دو روٹیاں تھیں۔ 

حضرت عیسی اور شاگرد آگے روانہ ہوگئے۔ آپ پھر ایک جنگل سے گزر رہے تھے تو آپ نے ایک ہرنیوں کا جھنڈ دیکھا۔ آپ نے ایک ہی رن کو اشارہ کیا وہ آپ کے پاس آ گیا۔ آپ نے اس کو ذبح کر کے اس کا گوشت کھایا۔ اور کال پر ٹھوکر مار کر کہا کہ اللہ کے نام سے زندہ ہوجا۔ وہ اللہ کے نام سے زندہ ہو گیا اور جا کر پھر آپ نے جھنڈ میں مل گیا۔ یہ دیکھ کر شاگرد دنگ رہ گیا اور کہا کہ اے اللہ کے پیارے نبی میں نے ایسا معجزہ اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا۔ جس پر آپ نے فرمایا کہ یہ دیکھ کر تمھارا ایمان میں کچھ فرق پڑا؟ جس پر شاگرد نے فرمایا کہ میرا ایمان آگے سے بھی زیادہ مضبوط ہو چکا ہے۔ میں اللہ کا شکر گزار ہوں کہ میں اللہ کے سچے نبی کا شاگرد ہوں۔ 

حضرت عیسی نے پھر پوچھا کہ بتاؤ کتنی روٹیاں تھی؟

  اس بار شاگرد نے کہا کہ اے اللہ کے پیارے نبی  دو  روٹیاں تھی۔ آپ یہ پوچھ کر آگے سفر پر روانہ ہو گے۔ 

ایک پہاڑ کے پاس آپ گزر رہے تھے تو آپ نے دیکھا وہاں پر سونے کی تین اینٹیں موجود تھی۔ آپ نے اینٹوں کے پاس جا کر کہا کہ ایک اینٹ میری اور ایک اینٹ تمہاری  اور ایک اینٹ اس کی جس نے ایک روٹی کھائی تھی۔ یہ سن کر شاگرد بہت شرمندہ ہوا اور اپنے کیے پر حضرت عیسی سے معافی مانگی۔ حضرت عیسی نے اپنے لالچی شاگرد کو وہیں چھوڑ کر جانے کا فیصلہ کیا۔ اور جاتی دفعہ کہا کہ یہ تینوں اینٹیں تمہاری ہیں۔ وہ شاگرد اینٹوں کے پاس بیٹھ گیا اور ان کو واپس لے جانے کے بارے میں سوچنے لگا۔ 

اتنی دیر میں وہاں پر تین ڈاکو آگئے۔ انہوں نے ایک لڑکے کو سونے کی اینٹوں کے پاس بیٹھے ہوئے دیکھا تو لالچ میں آ گئے۔ انہوں نے مل کر اس لڑکے کو قتل کر دیا۔ اور کہا کہ ہم تین ہیں اور ہماری اب ایک ایک اینٹ حصے میں آئے گی۔ 

 تو انہوں نے ایک بندے کو پیسے دے کر ساتھ والے گاؤں سے روٹیاں لانے بھیجا۔ جب وہ روٹیاں لینے گیا تو ڈاکو نے سوچا کے اگر ہم اس کو قتل کر دیں گے تو ڈیڑھ اینٹ ہمارے حصے میں آئے گی۔ اور ادھر وہ ڈاکو سوچ رہا تھا کہ اگر روٹیوں میں زہر ملا دیا جائے تو یہ دونوں مر جائیں گے اور تینوں اینٹیں میرے حصے میں آ جائیں گی۔ تو اس نے روٹیوں میں زہر ملا دیا۔ جب وہ روٹیاں لے کر واپس آیا تو اس کے دونوں ساتھیوں نے اس پر حملہ کردیا اور اس کو قتل کر دیا۔ اور خود روٹیاں کھانے بیٹھ گئے۔ زہر آلود روٹیاں کھانے کی وجہ سے وہ بھی مر گئے۔ 

جب حضرت عیسی سفر سے واپسی پر اسی جگہ سے گزرے تو دیکھا سونے کی اینٹیں بھی وہاں موجود تھی اور اس کے ساتھ چار لاشیں بھی موجود تھی۔ 

لالچ بہت بری بلا ہے۔ انسان کو اپنے حال میں خوش رہنا چاہیے۔ اوپر والا بڑا بے نیاز ہے۔ وہ ہم سے بہتر جانتا ہے ہمیں شکر ادا کرنا چاہیے ہم جس حال میں بھی ہو۔ 



  بحوالہ کتاب انوار نعمانیہ صفحہ نمبر 353


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *