Blog

Keep up to date with the latest news

قصہ ایک بادشاہ کا اور باورچی کا

                                    قصہ ایک بادشاہ کا اور باورچی کا

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک سلطنت کا بہت بڑا بادشاہ ہوا کرتا تھا۔ (جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ایک بادشاہ اپنے کھانے پینے پر زیادہ توجہ دیتا ہے۔ ان کے پاس خاص باورچی موجود ہوتے ہیں جو ان کے کھانے پینے کا انتظام کرتے ہیں۔ ان کے کھانے کے لئے ہرقسم کے اور طرح طرح کے کھانے بنائے جاتے ہیں۔ دن کے لحاظ سے ان کے کھانا مختلف ہوتا ہے۔ محتصر ان کے کھانے پینے کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ بادشاہ کے لیے کھانا پکانا ہوتا ہے تو باورچی بھی حاص رکھے جاتے ہیں)۔ 

بڑی سلطنت کے بادشاہ ہونے کے ناطے ہر کسی کا خواب تھا کہ یہ اس بادشاہ کا باورچی بنے۔ جب بادشاہ نے اپنا اقتدار سنبھالا اور تخت پر بیٹھ گیا تو باورچی کھانا لے کر بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور باورچی نے ہر قسم کا کھانا تیار کیا ہوا تھا اور طرح طرح کی لذیذ پلیز کھانے کی ڈشیں تیار تھی۔ یہ سب کچھ بادشاہ کے آگے پیش کیا گیا۔ بادشاہ نے کھانا کھایا اور کھانے کے بعد باورچی اس کو اپنے پاس بلایا، بلانے کے بعد باورچی کو کہا کہ آج کے بعد میرے لیے تم صرف دوپہر میں کھچڑی اور شام میں میرے لیے سادہ روٹی بناؤ گے۔ 

story of king and chef



باورچی نے جب یہ سنا تو کافی پریشان ہوا کیونکہ وہ طرح طرح کے کھانے نہیں پکا سکتا تھا اورکھا بھی نہیں سکتا۔ وہ کھچڑی اور روٹی پر گزارا نہیں کرسکتا تھا۔ اس لیے کچھ ہی دنوں میں باورچی کام چھوڑ کر بھاگ گیا۔ نیا بورچی رکھ لیا گیا اور وہ بھی کچھ دن کام چھوڑ کے بھاگ گیا۔ 

اب جو بھی نیا باورچی آتا وہ کچھ دن کام کرتا اور پھر بھاگ جاتا۔ بادشاہ دیکھ کر کافی پریشان ہوا۔ اب جب نیا بورچی رکھا گیا تو بادشاہ نے اس کے ساتھ ایک معاہدہ کیا۔ بادشاہ نے باورچی کو کہا کہ تم ایک سال تک کام چھوڑ کر نہیں جا سکتے۔ جس پر باورچی مان گیا۔ کیوں کہ بادشاہ کا باورچی بننا ایک  اچھی ملازمت تھی۔ لیکن وہ بھی حقیقت سے نا آشنا تھا۔ جب اس کو سادہ کھچڑی  اور روٹی بنانے کا حکم سنایا گیا تو وہ کافی پریشان ہوا۔ 

اس کے سارے ارمانوں پر پانی پھر گیا۔ اب وہ معاہدہ طے کر چکا تھا اس لئے وہ خود چھوڑ کر نہیں جا سکتا تھا۔ اس نے کچھ ایسی ترکیبیں سوچ نے شروع کر دی کہ بادشاہ خود ہی اس  کام سے نکال دے۔ اس نے ایک دن کی کھچڑی پکائی اور اس میں نمک  چاول کے برابر ڈال دیا۔ اور یہ کھچڑی لے کر بادشاہ کے دربار میں چلا گیا۔ بادشاہ نے کھچڑی کھائی اور ایک دفعہ نظر بھر کے باورچی کو دیکھا۔ 

دوسرے دن سن کھچڑی میں نہ نمک ڈالا اور کھچڑی لے کر بادشاہ کے پاس چلا گیا۔ بادشاہ نے کھچڑی کھائ اور ایک دفعہ نظر بھر کر باورچی کو دیکھا۔ بادشاہ نے باورچی کو کچھ بھی نہ کہا۔ 

  تیسرے دن پھر کھچڑی پکائی اور اس میں نمک کے برابر کا ڈالا۔  بادشاہ نے کھچڑی   کھائی اور نظر بھر کے باورچی کو دیکھا۔ باورچی کو مخاطب کرکے کہا میاں ایک قسم کی کھچڑی پکاؤ۔ یا تو چاولوں کے برابر نمک ڈالا کرو یا پھر ڈالا ہی نہ کروں۔ یا تھوڑا سا نمک ڈال اکرو۔ یہ سن کر کھچڑی  ہاتھ باندھ کر بادشاہ کے آگے کھڑا ہوگیا۔ اور کہا کہ  بادشاہ  جان کی امان پاؤں تو عرض کروں۔ بادشاہ نے کہا بولو کیا مسئلہ ہے

باورچی نے کہا کہ میری سات بیٹیاں ہیں۔ میں اس لیے آپ کا باورچی بنا تھا کہ میری غربت دور ہوجائے گی۔ میں کئی سالوں  سے فاقے کر رہا ہوں۔ لیکن اب پتہ چل رہا ہے کہ آپ کا باورچی بننے کے بعد بھی میں فاقے ہی کروں گا۔ کیونکہ میں سوچ رہا تھا کہ بادشاہ کا میں باورچی بن چکا ہوں تو میری اب غربت دور ہوجائے گی۔ لہذا ایک مہربانی کیجئے اپنے غلام کو آزاد کر دیجیے۔ 

 بادشاہ نے کہا کہ تم کو کس چیز کی ضرورت ہے آزادی کی یا پیسوں کی۔ باورچی نے جواب دیا بادشاہ صاحب پیسوں کی۔ بادشاہ نے کہا کہ صبح اس طرح کرنا ایک پاؤ کھچڑی  زیادہ بنا کے لے کے آنا۔ باورچی نے صبح ایک پاؤ کھچڑی  زیادہ بنا کے لے کےگیا ۔ بادشاہ نے اس میں سے تھوڑی سی کھچڑی کھائ اور باقی سات پلیٹوں پر رکھ کر باورچی کو دی کے جاؤ میرے سات وزیروں کو دے کر اور کہنا کے یہ بادشاہ کی طرف سے تحفہ ہے۔ 

باورچی کھچڑی لیکر وزیروں کے پاس گیا ی۔ جب زیرو کو پتہ چلا کہ بادشاہ نے ان کے لیے تحفہ بھیجا ہے تو انہوں نے بڑی شان سے باورچی کا استقبال کیا۔ اور نظر آنے کے طور پر ڈھیروں پیسے اور گلے سے اتار کر قیمتی موتیوں کے ہار اس کے ہاتھوں میں رکھ دئیے۔ جس سے  باورچی بہت حیران ہوا۔ یہ نذرانہ لے کر بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوا۔ اس نے بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہو کر سارا قصہ سنایا۔ 

بادشاہ نے کہا کیوں  اب تمہاری گربت کا کوئی کوئی معاملہ حل ہوا کہ نہیں۔ یہ سپر باورچی نے جواب دیا کہ بادشاہ سلامت اب تو میری ساری زندگی کا معاملہ حل ہو چکا ہے۔ میں معافی چاہتا ہوں کہ میں نے آپ کے ساتھ اس طرح کا برتاؤ کیا۔ میں اپنے کیے پر کافی شرمندہ ہوں۔ 

آپ جانتے ہیں کہ اس بادشاہ کا نام کیا ہے۔ اس بادشاہ کا نام تھا عالمگیر اورنگزیب۔ یہ بادشاہ اپنے سادہ پن کے لحاظ سے بہت مشہور تھا۔ اتنی بڑی سلطنت کا مالک ہو کہ بھئی یہ ایک ہی کھچڑی اور سادہ روٹی پر گزارا کر رہا ہے۔ 

یہ نہیں کہ انسان کے پاس پیسہ آجائے تو اسے اپنا آپ بھول جانا چاہیے۔ پیسہ آنے جانے والا ہے۔  آپ نے کل کو یاد کریں اور اللہ سے دعا کریں۔ 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *