Blog

Keep up to date with the latest news

بو علی سینا کی زندگی کے حیرت انگیز حقائق

                                                بو علی سینا کی زندگی کے حیرت انگیز حقائق



 کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں ایک ریس اس کی بیٹی نہایت ہی خوبصورت تھی۔ ایک دن اس کی بیٹی اچانک سیڑھیوں سے پھسل کر نیچے گر گئی اور اس کی کولے کی ہڈی کا جوڑ اپنی جگہ سے ہل گیا ۔ بیٹی بہت ہی پردہ دار تھی وہ کسی بھی کو اپنے جسم پر ہاتھ نہیں لگانے دے رہی تھی جس کی وجہ سے وہ دن بدن کمزور سے کمزور ہوتی جا رہی تھی۔ علاقے کے بے شمار ایسے طبیب آئے جو دعوی کرتے تھے کہ وہ ہاتھ لگائے بنا اس لڑکی کولہے کی ہڈی کو جوڑ دیں گے۔ 

لیکن کوئی بھی طبیب یہ کام نہ کر سکا۔ باپ کا دل بیٹی کو دیکھ کر بہت پریشان تھا کیونکہ بیٹی اپنے جسم پر کسی کو ہاتھ لگانے نہیں دے رہی تھی جس کی وجہ سے وہ درد کے مارے  کہرا رہی تھی۔ علاقے سے باہر کے طبیبوں کو بلایا گیا لیکن بے سود۔ 

bu ali sina in urdu stories



پھر اچانک کسی بندے نے کہا کہ اس علاقے سے باہر دوسرے شہر میں ایک طبیب موجود ہے جو کولہے کی ہڈی کا علاج کر سکتا ہے۔ باپ نے فورا اس طبیب کے پاس جانے کا بندوبست کیا اور رات کو اس طبیب کے پاس پہنچ گیا۔ باپ نے اپنی بیٹی کی تمام حالت اس حکیم کو بتا دی۔ حکیم نے اس بیٹی کے کولہے کی ہڈی کا علاج کرنے کی حامی بھرلی۔ حکیم صاحب نے ایک شرط پر علاج کرنے کی حامی بھری کے آپ مجھے اس ملک کی سب سے موٹی اور بڑی گائے لا کر دیں گے ۔ اس پر باپ رضامند ہو گیا اور بہت سارے پیسے خرچ کر کے ملک کی سب سے موٹی اور بڑی گائے خرید کر لایا۔ اس نے وہ گائے لا کر حکیم صاحب کے حوالے کر دی۔ حکیم صاحب نے کہا کہ آپ دو دن بعد اسی ٹائم اپنی بیٹی کو لے کر میرے گھر آ جائے گا۔ باپ نے شکریہ ادا کیا اور چلا گیا ہے۔ 

اس حکیم نے اپنے شاگردوں سے اس گائے کو اندر لے جانے کا کہا اور ساتھ میں یہ بھی کہا کہ اسے دو دن تک گھاس کا ایک بھی تنکا اور اور پانی کا ایک بھی قطرہ نہ دیا جائے۔ شاگرد یہ سب سن کر حیران ہو گئے لیکن وہ اپنے استاد کے حکم کی تعمیل کے آگے مجبور تھے۔ دو دن تک گھاس نہ کھانے کی وجہ سے اور پانی نہ پینے کی وجہ سے گائے بالکل کمزور ہوگئی۔ وعدے کے مطابق دو دن بعد رئیس اپنی بیٹی کو لے کر حکیم صاحب کے دربار میں حاضر ہو گیا۔ 

حکیم صاحب نے حکم دیا کہ  بیٹی کو اٹھاؤ اور گائے کی پیٹھ پر بٹھا دو، اور اس کے پاؤں کے نیچے سے آپس میں رسی سے باندھ دو۔ حکیم صاحب نے حکم دیا کہ اب گائے کو گھاس کیھلانی اور پانی پلانا شروع کر دو۔ گائے دو دنبھوکی اور پیاسی ہونے کی وجہ سے تیزی تیزی سے گھاس کھاتی اور ساتھ پانی پیتی۔ جس کی وجہ سے گائے کا پیٹ پھولنا شروع ہوگیا۔ حکیم صاحب نے گائے کے پانی میں تھوڑا سا نمک بھی ڈال دیا ہے جس کے پینے کی وجہ سے گائے کو اور پیاس محسوس ہوئی اور اس نے اور زیادہ پانی پینا شروع کر۔ گائے کے پیٹ پھولنے کی وجہ سے لڑکی کی ٹانگوں پر زور پڑھ رہا تھا۔ پھر اچانک ایک زوردار آواز آئی اور لڑکی کے  کولہے کی ہڈی جڑ گئی۔ اور درد کے مارے لڑکی بے ہوش ہوگئیں۔ حکیم صاحب نے اس باپ سے کہا کہ لیجئے آپ کی بیٹی کی ہڈی جڑ گئی ہے۔ جس پر باپ نے شکریہ ادا کیا ۔ اور حکیم صاحب نے نذرانے کے طور پر وہ گائے رکھ لی۔ 

یہ حکیم صاحب اور کوئی نہیں بلکہ بوعلی سینا تھے۔ یہ شخص ازبیکستان کے شہر بخارا میں پیدا ہوا۔ آپ کا اصل نام حسین تھا لیکن آپ کو مشرق اور مغرب میں طب کا باپ مانا جاتا ہے۔ اپنے فلسفہ اور فلکیات کی تعلیم عبداللہ نا دلی سے حاصل کی اور ساتھ ساتھ طب کی تعلیم بھی حاصل کرتے۔ 

پرانے زمانے میں جب جنگ ہوتی تھی تو ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ پر حملہ کرتا تھا تو اس سے جو مال برآمد ہوتا تھا وہ اس کو ساتھ لے کر چلا جاتا تھا۔ جو بادشاہ آتا تھا اس کی ہر چیز پر جیتنے والا بادشاہ قبضہ کر لیتا تھا۔ اور کتب خانے پر بھی قبضہ کر لیتا۔ اس کتب خانے سے برآمد ہونے والی کتابوں کو بہترین سرمایہ سمجھا جاتا تھا اور اس کو ساتھ لے کر چلے جاتے تھے۔ اس دور میں سب سے بڑا کتب حانہ بخارا کے سلطان کے پاس موجود تھا۔ جوانی کے دور میں جب بوعلی سینا کو پتہ چلا کہ وہ کتب خانہ بخارا کے سلطان کے پاس موجود ہے تو وہ کتب خانے میں جانے کے لیے طریقے تلاش کرنے لگا۔اس کو کہیں سے پتہ چلا کہ بخارا کا سلطان ایک ٹانگ کے مرض میں مبتلا ہے۔ اور بادشاہ نے اعلان کر رکھا ہے کہ جو میری اس بیماری کا علاج کرے گا میں اس کو منہ مانگا انعام دوں گا۔ اس نوجوان نے اس بیماری کو حل کرنے کے لئے حکمت پڑھنی شروع کردی۔ اور سلطان کے پاس چلا گیا اور دعویٰ کیا کہ میں آپ کے ٹانگوں کی بیماری کا حل کر سکتا ہوں۔ سب طبیب جو ادھر موجود تھے انہوں نے اس کا مذاق اڑایا اور کہا کہ ہم اتنے قابل ہو کر یہ  ٹھیک نہیں کر سکے تو تم کیسے کر لو گے۔ جس پر اس نوجوان نے پھر اپنا دعوی کیا کہ میں اس بیماری کا علاج کر سکتا ہوں۔ جس پر بادشاہ نے حامی بھر لی اور اس لڑکے نے کچھ ہی دنوں میں بادشاہ کی بیماری کا حل کر دیا۔ اب سلطان اپنے دربار میں کھڑا ہوکر اس لڑکے سے کہتا ہے کہ مانگو کیا مانگتے ہو۔ اس بار اس لڑکے نے جواب دیا کہ میں آپ کے کتب خانے میں ایک سال تک گزارنا چاہتا ہوں۔ جس پر سلطان رضامند ہو گیا۔ ابو علی سینا کی ذہانت کا اندازہ اس طرح سے لگا سکتے ہیں کہ وہ ایک سال میں پورا کتب خانہ حافظ کر گیا۔ اور سلطان بھی یہ دیکھ کر حیران ہو گیا کہ اس نے تو پورا کتب خانہ ہی خفظ کر لیا ہے۔ 

یہاں سے نکلنے کے بعد وہ بو علی سینہ نے ایسی کتابیں لکھیں اور  جو رہتی دنیا تک یاد رکھے جائیں۔ 

ان کی حکمت پر ایک اور دلچسپ قصہ مشہور ہے، ایک دفع بخارا کے سلطان کا بیٹا عجیب و غریب بیماری کا شکار ہو گیا۔ شہزادہ احساس کمتری اور نفسیاتی مریض بن چکا تھا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب اس کو بیماری نے پوری طرح سے گھیر لیا۔ یہاں تک یہ اس بیماری کا شکار ہو گیا تھا کہ یہ اپنے آپ کو ایک گائے تسلیم کرتا تھا۔ اور یہ اکثر دوسرے لوگوں سے کہا کرتا تھا کہ مجھے ذبح کرکے میرا گوشت کھاؤ میرا گوشت بڑا لذیذ ہے۔ سلطان اپنے بچے کی یہ حالت نہیں دیکھ پا رہا تھا۔ اس نے وہ علی سینہ سے التجا کی کہ آپ میرے بچے کا علاج کیجئے۔ آپ نے علاج کی حامی بھر لی۔ آپ شہزادے کے پاس گئے اور اسے کہا کہ ہم تم کو ذبح کرنے والے ہیں لہٰذا تم خوش ہو جاؤ۔ شہزادہ بڑا خوش ہو گیا اور بوعلی سینا نے دوسرے لوگوں سے کہا کہ اس کے ہاتھ پاؤں پکڑ کر باندھ دو کیوں کہ ہم اس کو ذبح کرنے والے ہیں۔ بو علی سینا چھری تیز اس کے سامنے کر رہا تھا اور ساتھ کہہ رہا تھا کہ آج تمہارا گوشت کھائیں گے۔ 

پھر جب وہ اسی نہ اس کے پاس آیا اور آکر کہا کہ یہ تو بڑی کمزور گائے ہے اس میں سے تو گوشت کوئی نہیں نکلے گا  آپ اس کو کھلا پلا کر موٹا تازہ کریں تب جا کر میں اس کو ذبح کروں گا اور اس کا اچھا خاصہ گوشت بھی نکل آئے گا۔ جس پاران شہزادے کو یہ احساس ہوا کہ اب اس کو ذبح ہونے کے لئے زیادہ خوراک کھانا پڑے گی۔ لہذا وہ دن رات کھانا کھانے شروع ہوگیا۔ آپ نے کھانے کے اندر دوا دینا شروع کر دی۔ اور ایک ماہ کے اندر اندر وہ شہزادہ بالکل صحت یاب ہوگیا۔ پس اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کیسے اپنے ذہن کے مطابق اور حکمت کے ذریعے اپنے ایک شہزادے کو ٹھیک کر دیا۔

اور آخر میں بو علی سینا کی سب سے بڑی بات۔ 

کسی شخص نے بوعلی سینا سے پوچھا کہ سنائیں کیسی گزر رہی ہے؟

اس پر آپ رو پڑے اور کہا کہ گنہگار ہوتے ہوئے بھی اللہ تعالی کی رحمت برس رہی ہیں سمجھ نہیں آتی کہ کس کا شکریہ ادا کرو اس کی رحمت کا یا پھر اپنے عیبوں کی پردہ پوشی کا۔ 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *